Friday, October 12, 2018

واٹر گیٹ اسکینڈل

واٹر گیٹ اسکینڈل ایک اہم سیاسی اسکینڈل تھا۔ جو ۱۹۷۰ء کے ابتدائی دور میں ریاست متحدہ امریکہ میں واشنگٹن ڈی سی میں واٹر گیٹ کمپلیکس میں ہوا تھا۔
صدر رچرڈ نکسن اور اُن کے انتظامیہ کے ملوث ہونے کا الزام لگا۔ پانچ چوروں کے پکڑے جانے کے بعد اس سازش کا پتہ چلا ، بنیادی طور پر چند صحافیوں اور کانگریس کے عملے کے ذریعے۔
واٹر گیٹ اسکینڈل کی تحقیقات متحدہ کانگریس نے کی اور اس تحقیقات کا مقابلہ نکسن کی انتظامیہ نے کی جس کی وجہ سے آئینی بحران پیدا ہو گیا۔

نکسن انتظامیہ کے اراکین کی طرف سے مخالفین کو اکثر غیر قانونی سرگرمیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ نکسن انتظامیہ کے اراکین نے سیاسی مخالفین کے دفاتر میں جاسوسی کروائی۔ نکسن انتظامیہ نے ایف بی آئی، سی آئی اے اور آئی آر ایس جیسی اجنسیوں کا غلط استعمال اپنے سیاسی مفاد کے لیے کیا، ایکٹوسٹ اور سیاسی پارٹیوں کی تحقیقات کاروائی۔
اس اسکینڈل سے نکسن انتظامیہ کے طاقت کا غلط استعمال کا انکشاف ہوا۔ صدر کے خلاف امتیازی کارروائی ہوئی اور اُنہیں استعفیٰ دینا پڑا اس اسکنڈل میں 69 افراد پر الزام لگا جس میں 48 افراد مجرم ثابت ہوئے جس میں زیادہ تر افراد نکسن انتظامیہ کے حکام تھے۔

یہ معاملہ پانچ چوروں کی گرفتاری سے شروع ہوا جنہوں سنیچر ۱۷ جون ۱۹۷۲ کو ڈی این سی ہیڈکوارٹر ، واٹر گیٹ کمپلیکس میں توڑ پھوڑ اور چوری کی۔ پولیس نے ان چوروں کو گرفتار کیا اور چوروں کے پاس سے کچھ رقم برآمد ہوا۔ یہ رقم اور صدر کے دوبارہ انتخابات کے لیے بنائی گئی کمیٹی کے فنڈ میں لنک پایا گیا۔ جولائی ۱۹۷۳ میں صدر نکسن کے خلاف سبوت سامنے آئے۔ تحقیقات سے یہ پتہ چلا کہ نکسن نے اپنے دفتر میں ٹیپ ریکارڈنگ سسٹم لگایا تھا اور بہت ساری باتیں ریکارڈ کی تھیں۔

حکومتی محققین نے اس ٹیپ کو حاصل کرنا چاہا لکین نکسن نے مہیا کرنے سے انکار کر دیا بات عدالت تک پہنچ گئی۔ عدالتوں میں مسلسل لڑائیوں کے بعد سپریم کورٹ نے اتفاق رائے سے صدر نکسن کو مجبور کیا کہ وہ حکومتی محققین کو ٹیپ جاری کریں۔

ٹیپوں نے اس بات کا انکشاف کیا کہ نکسن نے اپنی سرگرمیوں کو چھپانے کی کوشش کی تھی اور تحقیقات کو خارج کرنے اور اس کا رخ موڑنے کی کوشش بھی کی تھی۔
ایوان اور سینیٹ میں نکسن کے خلاف امتیازی کارروائی کیگئی اور نکسن نے صدر کے عہدے سے ۹ اگست ۱۹۷۴ کو استعفیٰ دے دیا۔
۸ ستمبر ۱۹۷۴ کو اُن کے جانشین جیرال فورڈ نے انہیں معاف کر دیا۔

     ڈیموکریٹک پارٹی کے صدر دفتر میں وائر ٹیپنگ
    
۲۷ جنوری ۱۹۷۲ کو فائنانس کونسل (سے آر پی) کے رکن جی- جی لیڈی اور اُن کے ایک ساتھی جان نے اس وقت کے (سی آر پی) کے چیئرمین جیب سٹورٹ ، صدر جان ڈین، اٹارنی جرنل جان میچل کو منصوبہ پیش کیا۔ جس میں ڈیموکریٹک پارٹی کے خلاف غیر قانونی سرگرمیاں شامل تھیں۔
جان ڈین کے مطابق یہ بیسویں صدی کے بدترین سکینڈل میں سے تھا ۔
اٹارنی جنرل جان میچل نے اس منصوبے کو غیر حقیقی قرار دیا۔ دو مہینے بعد انھوں نے الزام لگایا کہ اس منصوبے کا کم ورزن منظور کیا گیا ہے اور  انہوں نے اس میں ڈی این سی ہیڈکوارٹر میں ہونے والے چور ی کو بھی شامل کیا ۔میچل بعد میں سی آر پی کے چیئرمین منتخب کیے گئے۔

مئی میں (سی آئی اے) کے سابق آفیسر جیمز مےکارڈ نے (ایف بی آئی) کے سابق مینیجر ایلفریڈ بیلڈون کو ٹیلی فون بات چیت کی نگرانی کے لیے مقرر کیا۔ اس سے پہلے بیلڈون جان مچل کی بیوی مارتھا میچل کے باڈی گارڈ کے طور پر کام کر رہے تھے جو واشنگٹن ڈی سی میں رہتی تھیں۔
۲۸ مئی کو میں کوڈ اور ان کے چوروں کی ٹیم نے واٹر گیٹ بریک کا منصوبہ بنایا۔
ڈی این سی ہیڈکوارٹر کے دفاتر کے اندر دو فون کو وائر ٹیپ کیا گیا تھا جس میں ایک فون رابرٹ اولیور کا تھا اس وقت وہ اسٹیٹ ڈیموکریٹک کے ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کے طور پر کام کر رہے تھے۔
دوسرا فون ڈی این سی چیئرمین لیری اوبرائن کا تھا اور ان کے فون میں موثر آواز آلہ انسٹال کیا گیا تھا۔

۱۷ جون۱۹۷۲ کو آدھی رات کو واٹر گیٹ کمپلکس کے سکیورٹی گارڈ فرینک ویلز نے لیچ ٹیپنگ کورنگ محسوس کیا۔ کمپلکس کے کچھ دروازے جو انڈرگراؤنڈ پارکنگ سے مختلف دفاتر کے لئے نکلتے تھے لیچ کورنگ  سے دروازہ بند ہوجاتا ہے لیکن لاک نہیں ہوتا ہے۔ فرینک ویلز نے اس ٹاپک کو ہٹا دیا لیکن جب کچھ گھنٹے بعد دوبارہ آیا تو اس نے دیکھا کسی نے دوبارہ لیچ ٹیپ کیا ہے اس وقت اس نے فورا پولیس کو بلا لیا۔
ڈی این سی کے دفتر سے پانچ آدمی گرفتار کرلئے گئے

۱- ورگیولیو گونزالیز
۲- برنڈ بارکر
۳- جیمس میکورڈ
۴- یوجنیو مارٹنز
۵- فرینک اسٹرجس

ان پانچوں پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے چوری کی کوشش کی اور ٹیلیفون اور دیگر مواصلات کی مداخلت کی کوشش کی۔
واشنگٹن پوسٹ نے رپورٹ کیا "پولیس نے چوروں سے تالا، دروازے جمی، 2300 نقد رقم، شارٹ ویو رسیور جو پولیس کال اٹھا سکے، غیر موصل فلم کے چالیس رول، 2 35 ایم ایم کیمرہ اور تین پین سائز ٹیر گیس گن برآمد کیا۔
پندرہ ستمبر کو ان ملزموں پر چوری اور وائر ٹیپنگ کے قوانین کی خلاف ورزی کے جرم میں سزا ہوئی۔
ابتدائی طورپر نکسن کی تنظیم اور وائٹ ہاؤس نے فوری طور پر جرم کو چھپانے کی کوشش کی کیونکہ یہ دوبارہ صدر کے انتخابات کے لیے ہونے والے الیکشن میں نکسن کو نقصان پہنچا سکتا۔

        
         اسکنڈیل پر نگاہ اور چھپانی کی کوشش۔ 
         
ہنٹ اور لیڈی ایک علیحدہ خفیہ سرگرمیوں میں شامل تھے جس کا نام وائٹ ہاوس پلمبر تھا جو سیکورٹی لیک کو روکنے کے لیے قائم کیا گیا تھا اور دیگر حساس  سیکیورٹی معاملات کی تحقیقات کرنے کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس وقت کے ایف بی آئی کے ڈائریکٹر پیٹرک گرے نے ہنٹ کو بچانے کے لیے ثبوتوں کو تباہ کردیا۔
واٹر گیٹ سکینڈل کے پروسیکیوٹر جیمز نہال تھے۔
نکسن کے پریس سیکریٹری رون جگلر نے اس سکینڈل کو تیسرے درجے کا بتایا۔
29 اگست کو ایک نیوز کانفرنس میں نکسن نے کہا کہ "ڈین نے واقعے کی مکمل تحقیقات کی ہے جبکہ ڈین نے اس میں کو بھی تحقیقات نہیں کی تھی"۔ نکسن نے مزید کہا" میں واضح طور پر كه سکتا ہوں کہ اس انتظامیہ میں کوئی بھی اسکینڈل میں ملوث نہیں ہے اور نہ ہی وائٹ ہاؤس کا کوئی ارکان اور نہ ہی کوئی انتظامیہ کے ملازمین ۔
 
                           Money Trail
                  
      جون 1971 کو پریس نے رپورٹ کیا کہ چوروں میں سے ایک ریپبلکن پارٹی کا ساتھی تھا۔ سابق اٹورنی جنرل جان میچل جو اس وقت (سی آر پی) کے سربراہ تھے انہوں نے ان چوروں کے واٹر گیٹ سکینڈل میں ملوث ہونے سے انکار کردیا۔  1 اگست کو واٹر گیٹ چوروں میں سے ایک چور بارکر کے یو ایس اور میکسیکن بینک اکاؤنٹ میں پچیس ہزار ڈالر کا چیک جمع کیا گیا وہ چیک ۱۹۷۲  کے کمپین ڈونیشن کا تھا۔
      بارکر کے اکاؤنٹ میں جمع کیا گیا پیسہ براہ راست       چوری وائر ٹائپنگ کی ٹیم کے اخراجات، ہارڈ ویئر اور دیگر سامان کو فائننز کرنے کے لیے استعمال کیا گیا۔
     

                              میڈیا کا کردار
                             
واٹر گیٹ اسکینڈل اور سی آر پی کمیٹی کے بیچ رابطے کا خلاصہ میڈیا کوریج سے ہوا۔
دا واشنگٹن پوسٹ
ٹائم
دا نیویارک ٹائمز
کوریج ڈرامائی طور پر مقبول ہوا اور اس کے نتیجے میں سیاسی اور قانونی ردعمل میں اضافہ ہوا۔
پوسٹ کے صحافیوں باپ ووڈوارڈ اور کال برنسٹین نے ملر کا انٹرویو لیا جو نکسن کا بک کیپر تھا اور بہت ساری معلومات کو بے نقاب کیا، فنڈ کی خرابیوں اور ریکارڈوں کو تباہ کرنے سے متعلق انکشاف کیا۔
ایف بی آئی یہ جاننا چاہتی تھی کہ ووڈ وارڈ اور دوسرے صحافیوں کو انکی معلومات کہاں سے ملی جسے انھوں نے جرائم کے وسیع پیمانے کو بے نقاب کر دیا۔
ایف بی آئی کے آفیسر فیلٹ اور ووڈ وارڈ کے درمیان تمام خفیہ ملاقاتیں جون 1975 سے جنوری 1977 تک روسلین میں زیرزمین پارکنگ گیراج میں ہوئی تھی۔
ابتدائی مدت کے دوران زیادہ تر میڈیا اسکینڈل کے مکمل اثرات کو پورا کرنے میں ناکام رہے بہت سے میڈیا ہاؤسز نے باب اور ووڈ وارڈ کی معلومات اور تحقیقات پر توجہ نہیں دی۔
واشنگٹن اسٹار نیوز اور لاس اینجلس ٹائمز نے غلط خبریں چلائی۔
شکاگو ٹریبیون اور فلاڈیلفیا انکوائریر نے معلومات شائع  کرنے میں ناکام رہیں۔
وائٹ ہاؤس نے پوسٹ کی خبروں کو آیسولٹ کرنے کی کوششیں کی ۔
نکسن انتظامیہ کے اشارے پر ایف بی آئی نے پانچ رپورٹروں کے فون ٹیپ کیے۔
انتظامیہ اور اس کے حامیوں نے میڈیا پر الزام لگایا۔
۱۹۷۷ میں نیو ویسٹ اور نیویارک کے میگزین کے لیے جیل سے تحریر، ائلچمن نے دعوی کیا کہ نکسن نے انہیں ایک بڑی رقم پیش کی تھی جسے انہوں نے انکار کر دیا تھا۔

صدر نکسن نے امریکی عوام کو خطاب کرتے ہوئے استعفے کا اعلان کیا۔ ریاستی اور ملکی سطح پر اس اسکینڈل کے لیے نکسن کو خوب تنقیدوں کا سامنا کرنا۔
عالمی سطح پر بھی بہت سارے ممالک میں اس سکینڈل کی تنقید کی جس میں آسٹریلیا، چین، جاپان، سنگاپور سویت یونین، یوکے، ایران، کےنیا اور کیوبا وغیر ممالک شامل تھے۔
اپنے انتقال سے پہلے صدر رچرڈ نکسن اپنے آپ کو بے گناہ بتاتے رہے سن ۱۹۹۴ء میں ان کا انتقال ہوا ۔


                   

2 comments: